Buyon Leading Marketplace for Online Shopping in Pakistan

0341-2000530

0336-0005906

0
Your shopping cart is empty!

Buyon Leading Marketplace for Online Shopping in Pakistan

Shopping Cart

The product you are looking for is NOT available temporarily. For more details please click here to contact us or Whatsapp us on +92 336 0005906.

Recommended for you

Allah ke Safeer - Allah ke Wali - اللہ کے سفیر‘‘ اور’’اللہ کے ولی

Rs. 2450

Free Home Delivery in Pakistan
Product Code
Delivery Time 3-5 Days
    show more
    Ask a Question

    SKU: CH-LIT-SAF-1081

    Categories: Books & Media  ,  Other Products

    :
    حضرت جنید بغدادیؒ، حضرت رابعہ بصریؒ، حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ، حضرت نظام الدین اولیاء

    --------------

    ’’اللہ کے سفیر‘‘ اور’’اللہ کے ولی‘‘
    حضرت جنید بغدادیؒ کا ایک مرید کئی برسوں سے آپؒ کی خدمت میں مصروف تھا، ایک دن آپؒ اپنے اس مرید کے ساتھ جنگل میں جارہے تھے۔ اتفاق سے اس روز سخت گرمی پڑ رہی تھی، جب کچھ دیرتک مسلسل دھوپ میں سفرجاری رہا تو مرید کی زبان سے بے اختیار نکل گیا۔

     

    ’’ آج کی گرمی تو ناقابلِ برداشت ہے۔‘‘
    یہ سنتے ہی حضرت جنید بغدادیؒ ٹھہر گئے اور نہایت پرجلال لہجے میں اپنے مرید کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’ تو نے اتنے دنوں کی صحبت میں صرف شکایت ہی کرنا سیکھا ہے؟‘‘ مرید اپنے پیرومرشد کی گفتگو کا مفہوم نہیں سمجھ سکا اور دوبارہ موسم کی سختیوں کی شکایت کرنے لگا۔ حضرت جنید بغدادیؒ کے جلال میں اضافہ ہوگیا۔’’ ا پنی دنیا کی طرف واپس لوٹ جا! تو ہماری صحبت کے قابل نہیں ہے۔‘‘

    مختصر یہ کہ اس مرید کو خانقاہ سے نکال دیاگیا۔ دوسرے خدمت گاروں نے ڈرتے ڈرتے سبب پوچھا تو حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا’’ موسم کیا ہے؟ دوسرے الفاظ میں حکم خداوندی ہے۔ ماہ ونجوم اپنی مرضی سے طلوع وغروب نہیں ہوتے، سورج میں یہ طاقت نہیں کہ وہ اپنے ارادے سے آگ برسانے لگے۔ جب کوئی بندہ سردی یا گرمی کی شکایت کرتا ہے تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ وہ اپنے خالق کے فیصلوں پر راضی بہ رضا نہیں ہے۔ اس لئے ہم بھی ایسے شخص کو عزیز نہیں رکھتے اور وہ ہماری صحبت کے قابل نہیں ہے۔‘‘

    دلچسپ انداز تحریر رکھنے والے خان آصف نے یہ واقعہ اپنی کتاب ’’ اللہ کے سفیر‘‘ میں بیان کیاہے۔ یہ واقعہ حضرت جنید بغدادیؒ سے منسوب بے شمار واقعات میں سے ایک ہے۔ اللہ کے برگزیدہ بندوں کے انہی واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کو اشرف المخلوقات کیوں کہاگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج فتنہ وفساد کی اس دنیا میں یہی اولیائے کرام انسانیت کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔ ان بوریانشینوں نے اپنی پوری زندگی کو انتہائی ضروریات کے دائرے سے باہر نہیں جانے دیا حتیٰ کہ انھوں نے اپنی ضروریات پر بھی دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دی۔

     

    کیونکہ ان کی ساری دلچسپی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت سمیٹنے میں تھی اور پھر انھوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت ہی سے لوگوں کے اذہان وقلوب کو بھر دیا۔ وہ اپنے آپ پر شکر کی ایسی کیفیت طاری کرتے کہ اللہ اس کے نتیجے میں ان پر اپنی نعمتوں کی برسات کرتا اور اللہ کی یہ بلند مرتبت ہستیاں ان نعمتوں کو مخلوق خدا میں بانٹ دیتے۔ اللہ کے ان دوستوں کی زندگی کامطالعہ کیاجائے تو بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح نگاہِ مردِ مومن سے تقدیریں بدلتی ہیں۔ خان آصف نے اپنے مخصوص انداز میں اللہ کے ہرسفیر کی داستان حیات کو ایک دلچسپ کہانی کی صورت میں پیش کیا ہے۔

    ’’اللہ کے سفیر‘‘ حضرت جنید بغدادیؒ، حضرت رابعہ بصریؒ، حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکرؒ اور حضرت نظام الدین اولیاٰؒ کے تذکروں پر مشتمل ہے۔ جبکہ ’’اللہ کے ولی‘‘ میں حضرت منصور حلاجؒ، حضرت سیدعلی ہجویریؒ، حضرت معین الدین چشتیؒ، حضرت لال شہباز قلندرؒ، حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ، حضرت میاں میر لاہوریؒ، حضرت سلطان باہوؒ اور حضرت سچل سرمستؒ کے تذکرے موجود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے ان محبوب بندوں کے یہ تذکرے انسانوں کو بدل کررکھ دیتے ہیں، ایسی روشنی فراہم کرتے ہیں جس کی آج دنیا بھر کے معاشروں کو ازحد ضرورت ہے۔

    ’’اللہ کے سفیر‘‘ اور’’اللہ کے ولی‘‘… ان دونوں کتابوں میں سے ہر ایک سوا پانچ سو سے زائد صفحات پر محیط ہے، ہرایک کی قیمت 700روپے ہے۔ انھیں القریش پبلی کیشنز، سرکلر روڈ ،چوک اردو بازار ،لاہور نے نہایت عمدگی سے شائع کیا ہے۔ ٹائیٹل انتہائی دیدہ زیب جبکہ طباعت غیرمعمولی حد تک شاندار۔ ان کتابوں کی بے پناہ مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ محض تین چاربرسوں میں ان کے سات، سات ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔

    -----------------------------

    حضرت مولانا جلال الدّین رومیؒ

    ("اللہ کے سفیر" سے انتخاب)

     

    تاریخِ پیدائش : ۔۔۔۔۔ : 604 ھ

    تاریخِ وفات : ۔۔۔۔۔ : 670 ھ

    مزار مبارک : ۔۔۔۔۔ : قونیہ (ترکی)

     

    جلال الدین نام، روم اور رومی تخلص، بلخ میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم اپنے والدِ محترم شیخ بہاء الدین سے حاصل کی، جو اپنے وقت کے بڑے عالم تھے۔ مشہور بزرگ حضرت شمس تبریزؒ سے ملاقات ہوئی تو مولانا کی دنیا ہی بدل گئی۔ ایک درویش کی نگاہِ کیمیا تاثیر نے ہوش و خرد کی دنیا کو زیر و زبر کر دیا کہ مولانا جلال الدین رومیؒ بے اختیار پکار اٹھے ؎

    مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم

    تا غلام شمس تبریزی نہ شد

    "مثنوی مولانا رومؒ" کو دنیا کے ادبِ عالیہ میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔۔۔مگر شاعری کی کسی کتاب کو اس قدر احترام کی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔

    اپنے وقت کی دونوں سپر پاورز (ایران اور روم) اہلِ اسلام کے ہاتھوں شکست و بربادی سے دوچار ہو کر قصۂ پارینہ بن چکی تھیں اور ان کے مرثیہ خواں تک باقی نہیں رہے تھے۔ اللہ نے اپنے آخری رسولﷺ سے کیا ہوا وعدہ پورا کر دیا تھا کہ اہلِ ایمان صرف آخرت ہی میں کامیاب و کامران نہیں ہوں گے بلکہ دنیا میں بھی انہیں اقتدارِ اعلیٰ بخشا جائے گا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کا عروج اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ ساری دنیا کی دولت ان کے قدموں میں تھی اور بڑے بڑے تاج و تخت ان کی ٹھوکروں سے پامال ہو رہے تھے۔ کچھ لوگوں کو وہ زمانہ یاد آ رہا تھا، جب ایران کی فتح کے بعد مالِ غنیمت کے انبار دیکھ کر حضرت عمر فاروقؓ رو پڑے تھے اور سرِ دربار کسی شخص نے عرض کیا تھا۔

    "امیر المومنین! انتہائی خوشی کے موقع پر آپ کی آنکھوں میں یہ آنسو؟"

    جواب میں خلیفۂ ثانی نے فرمایا تھا۔ "میں اس لئے روتا ہوں کہ جہاں دولت کے قدم آتے ہیں، وہاں ایمان سلامت نہیں رہتا۔ اللہ تمہیں مال و زر کے فتنے سے محفوظ رکھے۔"

    اور پھر ایسا ہی ہوا تھا۔ دنیا کے سارے خزانوں کی کنجیاں مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھیں۔ عظیم الشان محل تعمیر کئے جا رہے تھے مگر کاشانۂ دل ویران ہوتا چلا جا رہا تھا۔ دیواروں میں قیمتی فانوس بھی آویزاں تھے مگر دماغوں کا اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا۔ جس قوم کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا تھا، آج وہی قوم کنیزوں کے خوبصورت جسموں سے اپنے حرم سجا رہی تھی۔

    پھر ایک دن بغداد کی شاہراہوں پر ایک مجذوب چیختا پھر رہا تھا۔ "لوگو! خدا کی نا فرمانیوں سے باز آ جاؤ۔ چنگ و رباب توڑ دو اور شراب کے ذخیرے نالیوں میں بہا دو۔۔۔ورنہ قدرت کا پیمانۂ برداشت چھلکنے والا ہے۔ عذاب کے دن گنے جا چکے ہیں، بس کچھ گھڑیاں باقی ہیں، ابھی توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ سرکشی چھوڑ دو، نہیں تو تمہارے کاندھوں سے گردنوں کے بوجھ کم کر دیے جائیں گے، بڑا خون بہے گا، بڑی رسوائی ہو گی۔"

    ہر گزرتے ہوئے لمحے کے ساتھ مجذوب کی لے تیز ہوتی جا رہی تھی۔ شروع میں لوگ اسے پاگل سمجھ کر ایک دلچسپ تماشے سے لطف اندوز ہوتے رہے مگر وہ دیوانہ تو بڑے پتے کی باتیں کر رہا تھا۔ بڑے خوفناک راز فاش کر رہا تھا۔ آخر عشرت کدوں میں رہنے والوں کو اس وحشی کے نعرے گراں گزرنے لگے۔ مجذوب سے کہا گیا کہ وہ نعرہ زنی بند کر دے۔ اس کی بے ہنگم آوازوں سے شرفاء کے سکون میں خلل پڑتا ہے۔ وہ کس عذاب کی باتیں کرتا ہے؟ عذاب ہمیں چھو بھی نہیں سکتا کہ ہم اہلِ ایمان ہیں۔ کئی بار تنبیہ کی گئی لیکن مجذوب نے اپنا چلن نہیں بدلا۔ وہ پریشاں بالوں اور بوسیدہ کپڑوں کے ساتھ ہر گلی کوچے میں چیختا پھر رہا تھا۔

    "اے بے خبرو! سرخ آندھی آنے والی ہے۔ اس کے تیز جھونکوں میں تمہارے پتھروں کے مکان روئی کے تیز گالوں کی مانند اڑ جائیں گے۔ اب اس قہر سے تمہیں کوئی نہیں بچا سکتا۔ ہلاکت اور بربادی تمہارا مقدر ہو چکی ہے۔"

    عیش و عشرت میں ڈوبے ہوئے لوگ موت کی خبریں سننے کے لئے تیار نہیں تھے۔ آخر معززینِ شہر نے مجذوب کی باتوں کو بد شگونی کی علامت قرار دے کر ایک سنگدلانہ حکم جاری کر دیا۔ اب وہ بے ضرر انسان جدھر جاتا لوگ اس پہ غلاظت پھینکتے تھے۔ مجذوب ان کی اس حرکت پہ قہقہے لگاتا تھا۔

    "میرے جسم پہ گندگی کیا اچھالتے ہو۔ اپنے مسخ چہروں اور غلیظ لباسوں کی طرف دیکھو۔ عنقریب ان پر سیاہی ملی جانے والی ہے، اور کچھ دن خدا کے نظام کا مذاق اڑا لو۔ پھر وقت تمہارا اس طرح مذاق اڑائے گا کہ تم موت کو پکارو گے مگر موت بھی تمہیں قبول نہیں کرے گی۔"

    اس کے بعد لوگ تشدد پر اتر آئے۔ مجذوب جہاں سے گزرتا تھا، جوان اور بچے اس پر پتھر برساتے تھے۔ لاغر اور نحیف جسم اپنے خون میں نہا گیا۔ بدمست انسانوں کے قہقہے بلند ہوئے۔ مجذوب بغداد کی ایک شاہراہ پر کھڑا لڑکھڑا رہا تھا۔ اس خوں رنگ تماشے دیکھنے کے لئے سینکڑوں انسان جمع ہو گئے تھے۔ مجذوب نے ہجوم کی طرف دیکھا اور بڑے اداس لہجے میں بولا۔

    "کیا تم میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جو ان سنگدلوں کو منع کرے اور میری طرف آنے والے پتھروں کو روک لے؟"

    مجذوب کی فریاد سن کر لوگوں کے قہقہے کچھ اور بلند ہو گئے۔ کسی نے سنگ باری کرنے والوں کو منع نہیں کیا۔ پورے مجمع کا ضمیر مر چکا تھا۔

    "عذاب لکھا جا چکا۔" مجذوب آسمان کی طرف منہ اٹھا کر چیخا "لکھنے والے نے لوحِ محفوظ پر لکھ دیا۔ آگ، خون، موت، ذلت اور بربادی۔" پھر مجذوب نے بہتے ہوئے خون کو اپنے چہرے پہ مل لیا، چند پتھر اور برسے۔ مجذوب زمین پر گر پڑا۔

    "مسخرا آسمان کی خبریں دیتا ہے۔" لوگ دیوانہ وار ہنس رہے تھے۔ "یہ خبر نہیں کہ خود اپنا کیا حال ہونے والا ہے؟" ایک مجبور انسان پہ مشقِ ستم کرنے کے بعد ہجوم منتشر ہو گیا، مجذوب کے جسم سے خون بہہ بہہ کر زمین پر جمتا رہا۔

    آخر بغداد کے با ہوش شہریوں نے ایک دیوانے سے نجات حاصل کر لی، اس دن کے بعد پھر کسی نے مجذوب کو نہیں دیکھا۔ وہ اپنا کام ختم کر کے بہت دور جا چکا تھا۔

     

    Online shopping in Pakistan has never been easy as 1,2,3. Buyon.pk offers the most reliable way to carry out online shopping. You can shop Allah ke Safeer - Allah ke Wali - اللہ کے سفیر‘‘ اور’’اللہ کے ولی and pay cash on delivery, make Mobile Payments like Easy Paisa wallet, Jazz cash account and UBL Omni, etc. You can also use different secure payment method like credit / debit card, online bank transfer / IBFT and can easily get the Allah ke Safeer - Allah ke Wali - اللہ کے سفیر‘‘ اور’’اللہ کے ولی delivered at your doorstep any where in Pakistan. Enjoy online shopping on Buyon.pk with most convenient way, Yahan sab milay ga!





    e-Shop since 2019
    FAISALABAD, Pakistan
    Transactions: 606 orders (631 pieces)
    DESCRIBED COMMUNICATION SHIPPING
    0 0 0